* زندگی کے حسین خواب دیکھتی آنکھیں *
(ریحانہ محمد علی( رانچی
زندگی کے حسین خواب دیکھتی
آنکھیں
پھولوں کے رنگ
تتلیوں کی دھنک
اور جنگجوئوں کی چمک بھول گئیں!
یادوں کے دامن میں
ریت کی آندھیاں
اور بارودی طوفان رچ گئے ہیں
ہم یہی دیکھنے کو بچ گئے ہیں!
پانی کی طرح بہے لہونے
رگوں کے خون پانی کر دئیے
اور اماں کو ترستے لوگ
ترقی کی مینار پہ
پانی پانی ہو رہے
زوال انسانی ہو رہے!
ماں کی چادر تار تار
ممتا بے بس دل فگار
کوکھ کی پیٹرا اس طرف
دل کا ٹکڑا آنگن پار
رشتوں کی پہچان ڈھونڈتا
پھر صبح آیا اخبار!
اماں اپنی بہنا کے
ماتھے پر جھومر ہوگا
اب کے لوٹ کے آنے تو دو
دو محلہ سا گھر ہوگا
اپنے گھر بھی شہنائی بجے گی
جگ مگ دوار اور در ہوگا
اماں…اماں…اماں
اماں کیوں خاموش ہوئی ہو؟
آنکھیں کیوں پتھرائی ہیں
خون رگوں میں جم سا گیا کیوں!
کانپتے ہاتھوں میں یہ کیا ہے؟
یہ تو …دل کا ٹکڑا ہے!
منت اور مرادیں مانگیں
کتنے صدقے، کتنے چلّے
راتیں وظیفے پڑھ پڑھ کے کاٹیں
جس کی خاطر لڑ پتی تھیں
بلا وجہ تم ابا سے
جس کی حفاظت باندھ کے ضامن
کیا کرتی تھیں سکہ سے
ساری دعائیں ، سارے سکّے
اور وظیفوں کی راتیں
کیا اس دن کو پروان چڑھی تھی؟
بہو کی چھم چھم اور پوتوں کی
کیسی خواہش پالی تھی
ڈھیروں پیسے محل دو محلے
گھر آنگن کے خواب سنہرے
خاک ہوئے بارودئوں میں
اور مزندگی کے حسین خواب دیکھتیں آنکھیں
رنگوں کا احساس بھول گئیں!
٭٭٭
|