* قول و عمل میں کوئی صداقت نہیں رہی *
غزل
قول و عمل میں کوئی صداقت نہیں رہی
بندوں میں اب خدا کی اطاعت نہیں رہی
ہر وقت دیکھتے ہیں حسیں کائنات کو
آنکھیں کھلی ہوئی ہیں بصارت نہیں رہی
سوچا یہی ہے جو ہوا تقدیر کا لکھا
اب مجھ کو تجھ سے کوئی شکایت نہیں رہی
سایہ فگن تھا سر پہ دعائوں کا سائباں
میں یہ سمجھ رہی تھی کوئی چھت نہیں رہی
سب کچھ وہی ہے، تم بھی وہی، میں بھی ہوں وہی
اب دل کو دل سے کس لئے راحت نہیں رہی
تسکینِ دل کو میں نے اُٹھا یا ہے یوں قلم
مجھ کو جو بولنے کی اجازت نہیں رہی
تنہائیوں میں کیجئے دل کا محاسبہ
شبنم دعا میں کس لئے طاقت نہیں رہی
ریشماںطلعت شبنم
Manzil-e-Subhan
Ist Main 3rd Cross
Shahanshah Nagar, Kolar-563101
Mob: 9141499886
talatshabnam786@gmail.com
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|