* دل کی تباہیوں کا تجھے کیوں ملال ہے *
غزل
دل کی تباہیوں کا تجھے کیوں ملال ہے
جس کی یہ انجمن ہے اسے خود خیال ہے
چہرہ اداس اداس ہے دل بھی نڈھال ہے
جو میرا حال تھا وہی اب ان کا حال ہے
طوفاں کی زد سے بچ کے گذر نا نہیں کمال
موجوں میں غرق ہو کے ابھر نا کمال ہے
ان کو جفا پہ فخر ہے ہم کو وفا پہ ناز
ان کی مثال ہے نہ ہماری مثال ہے
راتوں کی کروٹوں سے تو دنیا ہے بیخبر
آنکھوں کا رنگ سب سے چھپا نا محال ہے
نظریں نہ ہوں تو حسن بھی بے کار ہے صبا
گویا بہار میری نظر کا جمال ہے
**** |