* چاند تار ے بھی زیر قدم آگئے *
غزل
چاند تار ے بھی زیر قدم آگئے
یہ کہاں تیری چاہت میں ہم آگئے
جب کبھی یاد ان کے ستم آگئے
وہ تصور میں باچمِ نم آگئے
دفعۃ زلف رخ پر جولہراگئی
ایک مرکز پہ دیر وحرم آگئے
عزم ترک وفا کرچکے تھے، مگر!
آج پھر دل کی باتوں میں ہم آگئے
ہوش جانے کا ہم کو ذرا غم نہیں
تیری محفل میں تو کم سے کم آگئے
مے کشی کا مزا خاک میں مل گیا
لیجئے واعظ محترم آگئے
سن کے روداد مجھ سے شب ہجر کی
اور بھی ان کی زلفوں میں خم آگئے
اس کے دامن کی قسمت نہ پوچھ اے صبا
جس کے دامن میں دنیا کے غم آگئے
+++
|