کہمن
صابر عظیم آبادی
دولت
منظر:
ایک دولت مند کا ہے ماجرا
ساگ سبزی عمر بھر کھاتا رہا
مرغ و ماہی کا نہ چکھا ذائقہ
صرف دولت کی لگاتا تھا صدا
موت کا آیا فرشتہ جس گھڑی
زر کے غم میں دم نکلتا ہی نہ تھا
جب دکھائی نوٹ بیوی نے اُسے
روح کا پنچھی قفس سے اُر گی
کہمن:
وہ تو مرتے نہیں گھٹ گھٹ کے جیا کرتے ہیں
بخل کا زہر جو ہنس ہنس کے پیا کرتے ہیں
چوسنا جن کو غریبوں کا لہو آتا ہے
جمع دولت و ہ تجوری میں کیا کرتے ہیں
٭٭٭