* کوئی آباد منزل، ہم جو ویراں دیکھ ل *
کوئی آباد منزل، ہم جو ویراں دیکھ لیتے ہیں
بحسرت سو چرخِ فتنہ ساماں دیکھ لیتے ہیں
نظر حسن آشنا ٹھہری ، وہ خلوت ہو کہ جلوت ہو
جب آنکھیں بند کیں، تصویرِ جاناں دیکھ لیتے ہیں
وہ خود سر سے قدم تک ڈوب جاتے ہیں پسینے میں
بھری محفل میں جو ان کو پشیماں دیکھ لیتے ہیں
ٹپک پڑتے ہیں شبنم کی طرح بے اختیار آنسو
چمن میں جب کبھی گلہائے خنداں دیکھ لیتے ہیں
اسیران ستم کے پاسبانوں پر ہیں تاکیدیں
بدلتے ہیں جو پہرا قفل زنداں دیکھ لیتے ہیں
صفی رہتے ہیں جان و دل فدا کرنے پر آمادہ
مگر اُس وقت جب انساں کو انساں دیکھ لیتے ہیں
٭٭٭
|