* عقائد و ہم ہیں، مذہب خیالِ خام ہے س *
غزل
٭……عبد الحئی ساحرؔ لدھیانوی
عقائد و ہم ہیں، مذہب خیالِ خام ہے ساقی
ازل سے، ذہنِ انسان، بستۂ اوہام ہے ساقی
حقیقت آشنائی اصل میں گُم کر دہ راہی ہے
عروسِ آگہی پروردۂ ایہام ہے ساقی
مبارک ہو ضعیفی کو خِرد کی فلسفہ دانی
جوانی بے نیازِ عبرتِ انجام ہے ساقی
ابھی تک راستے کے پیچ و خم سے دل دھڑکتا ہے
مِرا ذوقِ طلب شاید ابھی تک خام ہے ساقی
وہاں بھیجا گیا ہوں چاک کرنے پردۂ شب کو
جہاں ہر صبح کے دامن میں عکسِ شام ہے ساقی
مرے ساغر میں مَے ہے اور ترے ہاتھوں میں بربط ہے
وطن کی سرزمیں میں بُھوک سے کہرام ہے ساقی
زمانہ برسرِ پیکار ہے پرہول شعلوں سے
تِرے لب پر ابھی تک نغمۂ خیام ہے ساقی
**** |