* خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سک *
غزل
٭……عبد الحئی ساحرؔ لدھیانوی
خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمانیاں نہ کر سکے
ہو کر خرابِ مَے تِرے غم تو بھلادئیے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے
ٹوٹا طلسمِ عہد محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شئے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کر سکے
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
مایوسیوں نے چھین لئے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے
****** |