* میرے دل میں جو ہے عیاں ہو گا *
میرے دل میں جو ہے عیاں ہو گا
آج پھر درد بیکراں ہو گا
شب کا دارومدار ہے جس پر
اس کی دھڑکن کا امتحاں ہو گا
ہم نے بازی گری کہاں کی ہے
ہم سے کیوں دور آسماں ہو گا
میں نے اب سوچنا ہی چھوڑ دیا
کس گلی میں مرا مکاں ہو گا
کون سی رت کی ہے تلاش اسے
کون لمحے میں وہ عیاں ہو گا
میرا میں مجھ سے گر بچھڑ جائے
سارا منظر دھواں دھوں ہو گا
ڈھونڈتا ہوں میں روزخوابوں میں
میرا بچپن مگر کہاں ہوگا
عشق میرا ہے نامکمل کیوں
کیا مرا میں ہی لا مکاں ہو گا
جھلملائیں گی شہر کی گلیاں
جب تری لہر کا زیاں ہو گا
کھل کے ملتا نہیں فلک ساجد
مجھ سے کیوں، کون درمیاں ہو گا
****** |