* دل کی یہ غم طلبی آج سے پہلے تو نہ تھی *
دل کی یہ غم طلبی آج سے پہلے تو نہ تھی
خشک آنکھوں کی گلی آج سے پہلے تو نہ تھی
شاخِ امید مہکتی سی نظر آ تی ہے
چارہ سازی یہ تری آج سے پہلے تو نہ تھی
دشتِ آوارگی یہ تیرا کرم ہے ورنہ
اپنی یہ دربدری آج سے پہلے تو نہ تھی
کیوں نگاہیں کسی مرکز پہ ٹہرتی ہی نہیں
یہ پریشاں نظری آج سے پہلے تو نہ تھی
آج سے پہلے تو دل اتنا سبکسار نہ تھا
دردمیں ہے جو کمی آج سے پہلے تو نہ تھی
****** |