donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Sajid Hameed
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* ساجد حمید کی شعری رعنائیوں کا اظہ *
ساجد حمید کی شعری رعنائیوں کا اظہار۔۔’’جگنو لمحے‘‘

ڈاکٹر محمد صدّیق نقویؔ ۔ادونی(انڈیا)
 
شاعر کی ذہانت اور شعور کی کیفیت کے ساتھ ساتھ مزاج کی سمت و رفتار کو اُس کے کلام میں تلاش کرنا سخت دشوار ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر شاعر اپنے عہد کا نمائندہ ہوتا ہے لیکن اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاعر کی عصری حسّیت در حقیقت اُس کے شعور اور مزاج کی آئینہ دار ہوتی ہے۔کچھ شعراء ماضی کے پروردہ ہوتے ہیں اور کچھ شعراء حال کے نمائندہ، جب کہ شاعروں کا ایسا گروہ بھی ہوتا ہے جو مستقبل شناسی کا حق ادا کرتا ہے۔اِن تمام خصوصیات کے علاوہ شاعری کی حقیقت اسی میں پوشیدہ ہے کہ شاعر اپنے اظہار کے ذریعے کیفیاتی فضا تیار کرنے کے ساتھ ساتھ حسّی خصوصیت کو بھی نمایاں کرے چنانچہ ایسے ہی چند نمائندہ شاعروں میں ساجد حمید کا شمار ہوتا ہے جو نہ صرف نئی نسل کے شاعر ہیں بلکہ اُن کی شعر گوئی میں ۱۹۷۰ء کے بعد کی عصری حسّیت کا شعور نمایاں ہوتا ہے ۔ وہ نہ صرف حمد و نعت و منقبت کے ذریعے اپنی فنی چابکدستی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں بلکہ غزل اور نظم کے توسط سے حسّی انکشاف کی نمائندگی بھی کرتے ہیں ۔بنیادی طور پر ساجد حمید کا تعلق کرناٹک کی سرزمین شیموگہ سے ہے اور وہ ایک ایسے باشعور شاعر ہیں جنہوں نے غزل کی روایت کی پاسداری کی طرف توجہ دی لیکن جب نظم نگاری کو ذریعۂ اظہار بنایا تو پابند نظم کے ساتھ ساتھ آزاد اور معرّیٰ نظم کے سانچوں کو بھی اپنی شاعری میں شامل کردیا۔اگر چہ ساجد حمید نے اپنے شعری مجموعے کا عنوان علامتی انداز سے منتخب کیا ہے اور’’جگنو لمحے‘‘ کے توسط سے جگنو کی چمک اور پھر تھوڑے سے وقفے کے بعد اندھیرا اور اس کے ساتھ ہی دوبارہ روشنی کی کیفیت کو نمائندگی دینے کے لیے جگنو لمحے کی ترکیب کوتراشا ہے جسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ ’’جگنو لمحے‘‘ ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں بابِ نظم کے ساتھ ساتھ بابِ غزل کے توسط سے شعری افکار اور خیال کی رعنائی کے ساتھ ساتھ عصری حسّیت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ساجد حمید اس لیے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس شعری مجموعے کے ذریعے اپنی فکری بلندی کے علاوہ شعوری بلند پروازی کی بھی مؤثر نمائندگی کی ہے۔غرض ساجد حمید کا شعری مجموعہ دعوتِ فکر ہی نہیں بلکہ دعوتِ توجہ بھی دیتا ہے۔
ساجد حمید نہ تو فکر و فلسفے کی توانائی کو شاعری میں ڈھالنے کے قائل ہیں اور نہ ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی شاعری میں احساس کی گرمی موجود ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سر زمینِ ہندوستان کی معاشی اور معاشرتی خصوصیات سے آگاہی اور جمہوریت کے نام پر ہونے والی انسانی پامالی کو دیکھنے کے بعد کسی حسّاس شاعر کے جذبات اور احساسات میں اگر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی تو ایسے شاعر کو زندگی کا نقیب نہیں قرار دیا جاسکتا۔چونکہ ساجد حمید زندگی کے لمحوں کو شعری حسّیت میں قید کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور شعری مزاج سے واقفیت کے علاوہ علمِ عروض سے دلچسپی کے ساتھ ساتھ خیال کی جولانیوں کو لفظوں میں بند کرنے کی مہارت رکھتے ہیں اس لیے اُن کی شاعری میں موجود فکری دائرہ صرف اُن کی ذات کی حد تک محدود نظر نہیں آتا بلکہ اُن کے عہد کے معاشرے کی منہ بولتی تصویر ’’جگنو لمحے‘‘ کی شاعری میں نمایاں ہوتا ہے۔ساجد حمید نے روایت سے استفادے کے علاوہ اُس کے ردّ و قدح کو ضروری قرار دیتے ہوئے شاعری کو ایسے واسطے سے گزارا ہے کہ جس کی وجہ سے اُن کی شاعری ذہانت اور فطانت کی علمبردار ہی نہیں بلکہ حسّی کیفیات کی طرف
نشاندہی کرنے کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اُن کے شخصی غم و خوشی کا دائرہ محدود نہیں بلکہ وہ معاشرے کی عیب داری اور حُسن فراموشی کو بھی اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں، اس طرح ساجد حمید کی شاعری نئی نسل کے ماضی اور اُس کے تاریخی تسلسل کو پیش کرنے کا ایسا اظہار بن جاتی ہے کہ اُن کے شعر چونکا دینے والے انداز سے وابستہ ہوکر خیال کی گہرائی و گیرائی کو سبک اور رواں بنانے کا سلیقہ بھی بخشتے ہیں اس لیے ساجد حمید کی شاعری کو اُن کے عصر کی آواز اور اُن کے افکار کو زمین اور ابدی افکار کا اظہار قرار دیا جاسکتا ہے۔ ’’جگنو لمحے‘‘ کی خوبی یہ ہے کہ اس کتاب کا’’ پیش گفتار‘‘ ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید جیسے عقابی ،تحقیقی و تنقیدی مزاج رکھنے والے قلم کار کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جب کہ ندا فاضلی جیسے ہمہ جہت شاعر نے ’’ساجد حمید کا شعری رویہ ‘‘کے زیر عنوان مضمون لکھ کر شاعر کی ہمہ جہت صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے جس سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ ساجد حمید نہ صرف قدرتی شاعر کا موقف رکھتے ہیں بلکہ اُن کے افکار کی تازگی نظموں اور غزلوں کے علاوہ حمد و نعت و منقبت کے توسط سے بھی مؤثر نمائندگی کا حق ادا کرتی ہے۔غرض ساجد حمید نے تمام تر فنکاری کے ساتھ شعری اظہار کو تجربے سے گزارا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا تجربہ اور تجزیہ حقائق پر مبنی ہے اس لیے جذبات اور احساسات کی نمائندگی کا پیکر ہوکر اظہار کے ہمہ جہت افکار کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔
ساجد حمید نے نظم کے باب میں جہاں اپنے تجربات اور احساسات کے اظہار کے لیے نظم کے آزاد لب و لہجے کو اختیار کیا ہے وہیں موضوعاتی نظمیں لکھنے کے دوران پابند نظم کی روایت کو اظہار کا وسیلہ بنایا ہے جس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف احساس کی جمالیات کو پیشِ نظر رکھا ہے بلکہ خاص طور پر سرزمینِ وطن اور مُلک کی ہر خصوصیت سے والہانہ وابستگی کی طرف بھی توجہ دی ہے ۔وہ جس انداز سے نظم کے آغاز کی طرف توجہ دیتے ہیں وہیں نظم کی عصری حسّیت کو واضح کرنے کے لیے ہر موضوع کے دوران مسائل اور اُس کی پیش کشی کی طرف بھی توجہ کو مرکوز کرتے ہیں۔ جیسا کہ لکھا جا چکا ہے کہ ساجد حمید نے احساسات کے اظہار کے لیے جتنی نظمیں لکھی ہیں وہ اوزان اور ہیئت کی پابند نہیں بلکہ ہر احساساتی نظم آزاد شعری روایت کی علمبردار ہے ،ایسی ہی نظموں میں اُن کی ایک اہم نظم ’’تانڈو ناچ ‘‘ ہے جو در حقیقت جنوبی ہند کے قبائلی انسانوں کے مرغوب رقص کی نشاندہی کرتا ہے اور اِس تانڈو ناچ سے اپنی فکری ہم آہنگی کو جِلا دے کر ساجد حمید جب آزاد نظم لکھتے ہیں تو اُن کے شعری رویے میں عصرِ حاضر کی دم توڑتی انسانیت بھی اظہار کا وسیلہ بن جاتی ہے چنانچہ’’ تانڈو ناچ‘‘ جیسی نظم کے حسّی رویے کو ملاحظہ فرمائیے جس کے توسط سے شاعر نے آگ دہکا کر قبائلوں کے ناچ کی منظر کشی کرتے ہوئے ایسے مصرعے بھی لکھ دئیے ہیں جن سے ہندوستان کی عصری انسانی تاریخ کا ایک ایک رویہ سامنے آجاتا ہے چنانچہ ’’تانڈو ناچ‘‘ کے ایک بند کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں:
عصمتیں تار تار ہوتی ہیں
عفّتوں کا جنازہ اُٹھتا ہے
پھوٹ پڑتے ہیں خوں کے فوّارے
ناچ اُٹھتے ہیں آگ کے شعلے
توڑ دیتے ہیں دم گھنے سائے
پھر چتائیں سجائی جاتی ہیں
بوڑھے ،بچے،جواں بلا تفریق
آگ میں زندہ جھونکے جاتے ہیں
اِس نظم میں شاعر نے ایک روایتی ناچ کے منظر کو عصری حسّیت سے وابستہ کرکے دورِ حاضر کے جس المیے کو نظمیہ انداز میں پیش کیا ہے اُس سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کے اندر کا انسان بار بار اُسے انسانیت کی ڈگر پر احترامِ آدمیت کا درس دیتا ہے اور انسان کی پامالی پر شاعر کا لب و لہجہ احتجاجی ہوجاتا ہے۔ساجد حمید نے جتنی آزاد نظمیں لکھی ہیں اُن میں احتجاج کی رَو انتہائی دھیمی اور اِس قدر زیریں ہے کہ جس کی وجہ سے شاعری پڑھنے یا پھر اُس کامطالعہ کرنے والے کے ذہن پر مثبت تاثّر مرتّب ہوتا ہے اور وہ شعر وادب کے توسط سے اپنی زندگی کو تبدیلی سے وابستہ کرنے کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ساجد حمید نے اپنی شاعری کو کسی تحریک یا رویے سے وابستہ نہیں بتایا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کی شاعری میں جہاں انسانیت کا درس ملتا ہے وہیں مشرقی اخلاقی حسّیت بھی نمایاں ہوتی ہے اور وہ اپنے کلام کے ذریعے قیمتی تاثر مرتب کرنے اور اظہار سے تاثیر کی گرمی کو اختیار کرنے کا بڑا خاص سلیقہ رکھتے ہیں۔’’جگنو لمحے‘‘ ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں نظم کے توسط سے بہ کثرت آزاد نظمیں اور چند منتخبہ پابند نظمیں شاعر کے اظہار کی حقیقت کا وسیلہ بنتی ہیں اور اِن نظموں کی جملہ تعداد چونتیس ہے اور اِن تمام نظموں میں شاعر نے اپنے تجربات اور دنیاوی مسائل کو شامل کرکے انسان کی بے حسی کو موثر انداز میں پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔عالمی سطح پر انسان کی انسان سے دشمنی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جب ساجد حمید کی نظم ’’حالتِ جنوں میں سارا شہر ہے‘‘ کا مطالعہ کیا جائے گا تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مکمل مصرعے کو نظم کا عنوان دینے کے باوجود بھی ساجد حمید نے پوری نظم کو آزاد روش سے مالا مال کرکے جس انداز سے مصرعوں کو عنوان کی چابک دستی سے وابستہ کیا ہے اُس کی خوبی کو سمجھنے کے لیے ساجد حمید کی نظمیہ شعری حسّیت کے پس منظر میں نمایاں چندمصرعے ملاحظہ ہوں:
بلندیوں میں جو نہاں ہیں پستیاں
نظر نہ آئیں گی ابھی
کہ۔۔۔
حالتِ جنوں میں سارا شہر ہے
سراب ہی سراب ہے
ہر ایک شئے
ہر اک نفس
زمیں سے آسمان تک
پیش کرنے میں روانی کو ملحوظ رکھا جائے تو تب اس قسم کی شاعری کا ماحول تیار ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ساجد حمید نے غزلوں کی پیش کشی کے دوران مردّف اور غیر مردّف شاعری کی طرف توجہ دی ہے اور اُن کی بعض غزلیں غیر مردّف ہونے کے باوجود تاثّر کی عمدہ مثال پیش کرتی ہیں۔مختصر بحروں میں شعر گوئی کا حُسن اختیار کرتے ہوئے ساجد حمید نے عمدہ تجربوں کو خیال کی وسعت کے ساتھ پیش کیا ہے اور ایسے وقت بھی روانی اور بے ساختگی اُن کی غزل کی جان بن جاتی ہے۔وہ اپنی غزلوں میں حُسن و عشق کی داستان سنانے سے پرہیز برتتے ہوئے زندگی کے مسائل کو غزلیہ شاعری میں پیش کرنے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔مختصر بحر کی ایک غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں:
چاروں طرف خزاں ہے
ہر شخص خستہ جاں ہے
آنکھوں سے جو عیاں ہے
عکسِ شبِ زیاں ہے
اک سمت بے حسی ہے
اک سمت رقصِ جاں ہے
 بپھری ہوئی ندی سے
لڑتا ہوا مکاں ہے
 
ساجد حمید نے شعری حُسن کاری کے ساتھ ساتھ خیال کی چابک دستی کو بھی غزل میں سمو لیا ہے ،مصرعوں کو چُست انداز میں پیش کرکے غزل کی شاعری کو اظہار کی ندرت سے وابستہ کرنے کا فن ساجد حمید کو خوب آتا ہے۔وہ نئی ردیفوں میں خیال کی گہرائی اور گیرائی کو پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب ہیں اور احساس ہوتا ہے کہ غزل کے توسط سے ذہنی وسعتوں کو پیش کرنے میں ساجد حمید جواب نہیں رکھتے چنانچہ اُن کی غزل کے یہ اشعار دیکھیے:
 
دل ہوا جب تنگ پیلا پڑگیا
منظرِ خوش رنگ پیلا پڑ گیا
وقت کی آنکھوں میں رقصِ مرگ تھا
زیست کا انگ انگ پیلا پڑ گیا
اک کبوتر زعفراں اور سبز میں
چھڑ گئی جب جنگ پیلا پڑ گیا
دیکھ کر ہمزاد میرا کیوں مجھے
آدمی کے سنگ پیلا پڑ گیا
شاعری کے توسط سے ساجد حمید نے تجربے کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ اظہار کی جولانی کو نمایاں کرنے میں پوری کامیابی حاصل کی۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی شعری وحدت کبھی قافیے کی ندرت سے وابستہ نظر آتی ہے تو کبھی ردیف کی ندرت کی وجہ سے اُن کی غزل میں انفرادیت جھلکنے لگتی ہے۔وہ جس آن بان کے ساتھ غزل کو عصری میلانات سے وابستہ کرکے حُسن کاری کا کام انجام دیتے ہیں اس سے خود پتا چلتا ہے کہ ساجد حمید نہ تو پیکر تراشی کی طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی اُن کی غزلیہ شاعری عصری علامتوں کا نوحہ سناتی ہے بلکہ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جذبات اور احساسات کو عصری میلانات سے ہم آہنگ کرکے تجربات کی ایک ایسی دنیا سجائی ہے جس میں انسانیت کی پامالی اور جمہوریت کی حوصلہ شکنی کی خصوصیت نمایاں نظر آتی ہے۔ اگر چہ ساجد حمید نے خود کو کسی اِزم سے وابستہ نہیں رکھا اور اُن کی غزلوں میں روایتوں کا اظہار نمایاں نظر آتا ہے لیکن روایت سے استفادہ کرکے حقیقت کی دنیا کو اپنے تجربات سے وابستہ کرکے شعری حسّیت کو نمایاں کرنے کا خوب صورت انداز ’’جگنو لمحے‘‘ کی غزلیہ شاعری میں بطورِ خاص نمایاں ہوتا ہے۔ساجد حمید کی اِس غزل کا پرتو دیکھیے:
 
سبز موسم میں خزاں رقصاں ہے
وصل ساعت میں گماں رقصاں ہے
کیا بتائیں کہ عبادات میں بھی
آج کل سود وزیاں رقصاں ہے
برق یادوں پہ گری ہے جب سے
دل کے آنگن میں دھواں رقصاں ہے
جو نظر آتی ہے ساکت و ہ گھڑی
غور سے دیکھو میاں رقصاں ہے
 
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساجد حمید کی فکر پر تصوّف کی گہری چھاپ ہے اور وہ مذہب کے اُس روایتی ہیولے سے باہر نکلنا چاہتے ہیں جو در حقیقت انسان کو مختلف ذاتوں میں بانٹ دیتاہے ،یہی خصوصیت اُن کی غزلوں میں نمایاں ہوتی ہے۔جب تک کسی شاعر کے دل میں وجدان کا سلیقہ نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں کہ اُس کے تخّیل کے ذریعے ایسے شعر اظہار کا ذریعہ بن جائیں۔مختصر بحر میں ساجد حمید نے جو کیفیاتی فضا پیدا کی ہے اور لفظوں کے در وبست کے ذریعے غزل کی ہمہ رنگی کو پیش کیا ہے اسے جاننے کے لیے اُن کی غزل کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
 
نورِ صدا ہے میرے اندر
کون،خدا ہے میرے اندر
چنداصورت، جوگی موسم
گونج رہا ہے میرے اندر
جس کو دنیا ڈھونڈ رہی ہے
چھپ بیٹھا ہے میرے اندر
دیکھو اس دریا کو ساجدؔ
جو بہتا ہے میرے اندر
 
 
 
ساجد حمید نے غزل کی شاعری میں اپنے انداز کی ایک نئی دنیا سجائی ہے اور اُن کی غزلوں میں نئی سوچ کے زاویے اپنا اثر دکھاتے ہیں۔نظم نگاری میں وہ جس طرح کامیاب ہیں اُسی طرح غزل کی شاعری میں بھی اُن کا انداز معاصر شعراء سے بالکل مختلف ہے اور اُن کا ادبی سفر مستقبل کی طرف رواں دواں ہے۔جس بلندی کے ساتھ وہ نظم لکھتے ہیں اسی چابک دستی کے ساتھ غزل لکھنے پر بھی انہیں دسترس حاصل ہے۔غرض یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ساجد حمید اپنے شعری مجموعے’’جگنو لمحے‘‘ کے توسط سے خیالات کی ایک نئی دنیا سجانے میں پوری طرح کامیاب ہیں ا ور اُن کی شعری حسّیت سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ مستقبل کا ادبی مؤرخ نہ صرف اُن کی شاعری پر توجہ دے گا بلکہ اردو کے نقّاد اور ادیب بھی اُن کی شعری حُسن کاری پر توجہ دیتے ہوئے شعر گوئی میں اُن کے کمال کی صداقت کو پیش کرکے ادبی مرتبہ متعیّن کرنے کے لیے سازگار ماحول پید اکریں گے۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 499