غزل
سلیم فگا ر
چمکے گا کوئی کیسے سرِخاک ستارہ
ہر بار اُٹھا لیتے ہیں افلا ک ستا رہ
رہتا ہے میری آنکھ کے دریا میں ہمیشہ
ڈوبا نہیں احسا س کا تیرا ک ستارہ
بخشے گا کوئی لمحہ کبھی مجھ کو بھی کرنیں
چمکے گا کبھی تو مرا ادراک ستارہ
کم ہوتی نہیں تیر گی مٹی کے بد ن سے
رکھا ہے کئی بار تہہِ خا ک ستارہ
آئندہ صدی اب ہے یہی تیری وراثت
یہ خاک میں لپٹا ہوا نمنا ک ستارہ
اُٹھے گی نظر اُسکی کبھی کیف میں ڈوبی
چمکے گا کبھی آنکھ میں بے با ک ستا رہ
روشن تھا کبھی وہ بھی فگار اپنے فلک پر
جو ٹو ٹ کے بکھرا ہے سرِخاک ستارہ
*******************