غزل سلیم فگارؔ
ہوا کے تخت پہ ایسے مجھے بٹھائے گا
جلا کے خاک مری چار سُو اُڑائے گا
یہ کائنات مری رہگذر ہے دیکھیں اب!
جنونِ شوقِ سفر کتنی دُور جائے گا
صدا کی طرح سے جاری،یہ آدمی کا سفر
زمیں کی تہہ میں خموشی سے ڈوب جائے گا
میں خود میں کھویا ہوا تھا کہ تم نے ڈھونڈ لیا
گماں نہ تھا کہ،کوئی اتنی دور آ ئے گا
کمالِ وصفِ محبت سے آ گہی تھی کسے
خبر کہاں تھی کوئی مجھ میں یوں سمائے گا
سفر میں ٹوٹ چکا ہوں مگر یقیں ہے
وہ مجھ کو گوندھ کے پھر سے نیا بنائے گا
*****************