غزل
ھوا کے تخت پہ ایسے مجھے بٹھائے گا
جلا کے خاک مری چار سوُ اُڑائے گا
یہ کائنات مری رہگذر ہے دیکھیں اب
جنون ِ شوق سفر کتنی دور جائے گا
صدا کی طرح سے جاری یہ آدمی کا سفر
زمیں کی تہہ میں خموشی سے ڈوب جائے گا
میں خود میں کھویا ہواتھاکہ تم نے ڈھونڈ لیا
گماں نہ تھا کہ،کوئی اتنی دور آئے گا
کمال ِ وصفِ محبت سے آگہی تھی کسے
خبر کہاں تھی کوئی مجھ میں یوں سمائے گ
سفر میں ٹوٹ چکا ہوں مگر یقیں ہے مجھے
وہ مجھ کو گوندھ کے پھر سے نیا بنائے گا
**************