غزل
سلیم فگارؔ
آج بھی روحیں بھٹک رہی ہیں کھیتوں میں ،کھلیانوں میں
گاؤں سے جو بس گئے آ کر شہروں کے ویرانوں میں
لہجے ہیں کہ نرخ آویزاں کاروباری چہروں پر
اُونچی نسبت والے بھی تبدیل ہوئے دکانوں میں
میرے اندر شو ر بپا ہے صدیوں کی تنہائی کا
وقت کی چیخیں گونج رہی ہیں میرے دونوں کانوں میں
میری ذات میں دیواروں کا جنگل بونے والو کہو
آدم کو تقسیم کرو گے تم اور کتنے خانوں میں
اُس نے سارے نوچ دیئے ہیں اپنے سرد روّیوں سے
میں نے کیا ،کیا پھول رکھے تھے آنکھوں کے گلدانوں میں
**********************