غزل سلیم فگارؔ
اب کے صدی گرانی کی ہے
رشتوں میں ارزانی کی ہے
خط میں اُس کو کیا لکھنا تھا
دل کی بات زُبانی کی ہے
تم نے سوچ کو سفر دیا ہے
فکر میں ایک روانی کی ہے
درد ، گداز بھی دین ہے اس کی
جس نے ہجر نشانی کی ہے
وقت نے مجھ کو اُوڑھا ،برتا
میری شکل پُرانی کی ہے
کس نے میر ا بچپن کھیلا
کس نے بسر جوانی کی ہے
جہل بھرا ہے سوچ میں اب بھی
کب کوئی بات سیانی کی ہے
*******************