غزل
سلیم فگارؔ
ایسا نہیں کہ مجھ کو پکارا نہیں گیا
باغِ عدن میں ،میں ہی دوبارہ نہیں گیا
صدیاں گُزر گئی ہیں،کہ قرطاسِ وقت پر
یہ آگہی کا بوجھ اُتارا نہیں گیا
شاخِ اُمید سبز ہے فصلِ یقین سے
آندھی میں اُڑ کے بور ابھی سارا نہیں گیا
نکلا ہوں اپنی خاک سے سبزہ پہن کے میں
اس بار بھی اَجل سے میں،مارا نہیں گیا
آتا اُتر کے بام سے ان بازؤں میں چاند
اُس تک میری نظر کا اشارا نہیں گیا
اپنی بقا کی جنگ لڑی آدمی نے خود
اس بار معجزہ بھی اُتارا نہیں گیا
*********************