غزل
سلیم فگارؔ
اپنے غم کو اپنی آنکھوں میں بلونا چاہیئے
شہرِ تنہا میں لپٹ کر خود سے رونا چاہیئے
جم گئی ہیں بے حسی کی کالکیں احساس پر
آنسوؤں کے آب سے ہر دل کو دھونا چاہئیے
لمحہ، لمحہ آنکھ میں کوئی خواب مرتا ہے مرا
کب تلک چھپ،چھپ کے پلکوں کو بھگونا چاہیئے
وقت بھی بگڑا ہوا بچہ ہے جیسے شاہ کا
ہر گھڑی ہی اک نیا جس کو کھلونا چاہیئے
کیسا موسم ہے کہ قبریں اُگ رہی ہیں چار سو
خاک کو اتنا نہیں زرخیز ہونا چاہیئے
*******************