donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Saleem Wahid Saleem
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* سارے ہی موسموں میں وہی رنگ ہے *
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم

(see www.saleemwahid.blogspot.in)

سارے ہی موسموں میں وہی رنگ ہے
سردیوں کے ٹھٹھرتے ہوئے دن بھی یوں ہی گئے
وہ افق سے شفق تک کا رہرو یونہی
نیل کے بیکراں شامیانے تلے
شرق تا غرب منزل بناتا رہا
منجمد یخ زدہ پستیوں
کوہساروں بیابانوں شہروں میں تابندگی
اور حرارت کے جاں بخش مخزن لٹاتا رہا
ساتھ روزانہ کی جادہ پیمائیاں
طول مدت میں پیہم گھٹاتا رہا
چاندنی بام و در سقف و میداں میں 
عرش سے فرش تک رقص کرتی رہی
بستی بستی میں کھیت اور کھلیان میں
ذرے ذرے کے دل میں اترتی رہی
ننگے پیڑ اور پھلواریوں سے ملی
تو ہر اک پیڑ کے ریشہ و رگ میں تھی جھرجھری
پتّے گرتے رہے دن گذرتے رہے
ایسے دن بھی کہ جب شامیانے تلے
دونوں تابندہ راہی قریب آ گئے
لیکن اس قرب کا ہر سرابِ نظر 
اک نئی داستانِ الم کو جنم دے گیا
اور تابندہ راہی بچھڑتے رہے
اپنے محور کی گردش میں جکڑے ہوئے
اپنی ہی حد میں دن رات چلتے گئے
اور دن رات لمحوں میں ڈھلتے رہے
جلتے لمحے جو آندھی میں سگرٹ کے اڑتے دھوئیں
کی طرح سے گئے
اور نادیدہ منزل میں گم ہو گئے
اور یہ بادیدہ منزل مرا ذہن ہے
مرا ذہن ہے یا ترا ذہن ہے
یا یہ نادیدہ منزل کسی اور کا ذہن ہے
اور یہ لمحے جاکر پلٹتے نہیں
یاد بن کر پلٹنے کے اعجاز میں
بیتے دن آنے والے دنوں سے تو ملتے نہیں 
خیم�ۂِ آسماں کے تلے رہ کے بھی
چاند سورج کے کب مٹ سکے فاصلے
اس قدر فاصلے بھی مٹے ہیں کبھی
ان گنت فاصلے، ا ن گنت فاصلے
تیری تقدیرہیں میری تقدیر ہیں

اور تقدیر کیا ہے یہی بے بسی 
جو نہ تم سے نہ مجھ سے مٹی
جو کسی اور صورت بھی مٹتی نہیں
ہاں مگر یہ کہ لمحات زر میں ڈھلیں
یا کوئی زر کے رتھ زر کے رہوار آنے جانے لگیں
یا اگر انقلابِ جہاں تاب میں ڈھل سکیں 
تو یہی بے بسی اپنا منہ پیٹ کر
اپنی ہی آگ کی راکھ ہو جائیگی
اور نادیدہ صحراؤں کی بے کراں وسعتوں میں بکھر جائے گی
بے بسی 
جس سے بزمِ جوانی سجائی گئی
بے بسی
جس کے آگے کوئی دن بھی ہو رات ہے
رات کا کیا ہے، رات آگئی اور گئی
اور سب بھر کا جاگا ہوا چاند رخصت ہوا
صبح ہوتی رہی شام ہوتی رہی
کوئی مژدہ نہ پیغام۔کچھ بھی نہیں
لمحے مرتے رہے
پتے گرتے رہے
اشک امنڈتے رہے

جیسے ا پنے ہی ماتم میں گریاں کوئی 
زندہ مردے کے ماتم میں روئے کوئی
میتِ محض کو غم تو ہوتا نہیں
مردہ بارِ مسرت تو ڈھوتا نہیں
جب حواس اور احساس کے سارے ہی قافلے جا چکیں
پھر محالات امکان کے دائرے میں تو آتے نہیں
ہاں یہ امکاں فقط زندہ مردہ میں ہیں
یوں ہی میں اپنے ماتم میں روتا رہا
زندگی 
اور میں
لمحے لمحے میں ڈھلتے رہے
اور مرتے رہے
پتّے گرتے رہے
اشک امنڈتے رہے
پتے پتے کے ماتم میں روتا رہا
زندہ ہوتے ہوئے
اپنے ماتم میں روتا رہا
روتے روتے ہی یہ فصلِ سرما گئی
پھر بہار آگئی سبزہ و گل لئے
قہقہے ، چہچہے،زمزمے جاگ اٹھے

پنچھیوں کے ترانے ابھرنے لگے 
نیلگوں آسماں بادلوں سے بھرا
اور بھرتا رہا
موتیوں سی پھواریں برستی رہیں
اور جل تھل زمیں
کچی چاندی کی چادر سی بنتی رہی
کچی چاندی کے گھنگھرو سے بجتے رہے 
اور بکھرتے رہے
آسماں پر افق تا افق
کتنے ہی رنگ جادو جگاتے رہے
ابر پاروں کی ٹھنڈی حسیں چھاؤں میں
طائر اڑتے رہے
گیت،خوشبو، حسیں رنگ ہر سو ابھرتے رہے
لیکن اس فصل میں بھی
کونپلوں، مہکی پھلواریوں
اور سر سبز پیڑوں کے ہی درمیاں
اک نہ اک پیڑ، گم گشتہ پتوں کا نوحہ سناتا رہا
جس کی ایک ایک شاخ
ایک ادنیٰ سی موجِ ہوا سے لرزتی رہی
چند ایک خشک پتوں کو تھامے ہوئے

لمحے لمحے جو دامن چھڑاتے رہے 
لے اڑی جن کو موجِ ہوا
اور پیڑ اس خجالت میں 
عریانیت میں سسکتا رہا
سسکیاں
اس کی شاخوں میں تھیں
یا ہوا میں تھیں 
کس کو خبر
میں تو روتا رہا
شام ہوتی رہی
صبح ہوتی رہی
وقت اڑتا رہا
اور پیغام ! کوئی نہیں
کچھ نہیں !!
بیتے لمحوں کی یادیں بھی دھندلا گئیں
اڑتے پتوں کے منظر بھی گم ہو گئے
پتھروں پر کہیں سر دھرے سو گئے
اور اب
جب کہ گرمی کے سورج میں تابش بھی ہے
صبح کے وقت کی کیف پرور
سنہری چمکتی ہوئی دھوپ میں
فصل کاٹی کوئی اور نہ بوئی کوئی
اور شفق تو فقط رنگ ہی رنگ ہے
رنگ امید کے خون کا۔پھول کا
لیکن اک مژد�ۂِ انقلاب آفریں
پھول میں بھی شفق میں بھی پوشیدہ ہے
سارے ہی موسموں میں وہی رنگ ہے
*****
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 353