* تکلفات کی اک ایک رسم توڑ بھی دے *
غزل
تکلفات کی اک ایک رسم توڑ بھی دے
کلائی گردشِ دوراں کی تو مروڑ بھی دے
طلسمِ وہم و یقیں خود ہی ٹوٹ جائے گا
ذرا سا دامنِ دل چاک کرکے چھوڑ بھی دے
یہ ناخدا کہیں تیرا خدا نہ بن جائے
تو بڑھ کے اپنے سفینے کے رخ کو موڑ بھی دے
اُسی پہ جان چھڑکتے رہے ہیں دیوانے
جو قصرِ دل کو سجائے ، سجا کے توڑ بھی دے
وفا کے قتل پہ مقتل میں کون ہنستا تھا
یہ ٹکڑا اپنے فسانے میں آج جوڑ بھی دے
ہر ایک سنگ میں سوئے ہوئے ہیں بُت شاہین
نظر سے چھو کے ذرا تو انہیں جھنجھوڑ بھی دے
(ڈاکٹر) سلمیٰ شاہین
RZ.2677A/28,
New Hroizian Aptt.
Flat No.108, Tughlaqabad Ext.
New Delhi-110019
Mob: 9971824933
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|