غزل
ثمینہ گل
دلکش اور رنگین نطارے میں اور تُو
بہتی نیلی جھیل کنارے میں اور تو
رات کی مستی چاند نگر سے اتری شال
بہکے بہکے پیار اشارے میں اور تُو
ٹوٹی چوڑی، زخمی انگلی، تیرا خط
بھولی یادیں نین کٹارے میں اور تو
آبلہ سازی جیون سارا چھالے چھالے
جنگل جنگل کانٹے سارے میں اور تُو
پیاسا جیون آس کی ندیا جھلمل روپ
شور مچاتے چنچل دھارے میں
..............................................