* پھر دھوپ ڈھلی سر سے *
پھر دھوپ ڈھلی سر سے
اور شام اتر آئی
سب لوگ چلے آگے
اس کوچۂ غربت سے
بیٹھے ہیں مگر رَہ میں
۔۔۔۔ دل گیر ِشناسائی
جاتے ہوئے لوگوں میں
اک شخص عجب دیکھا
اس عالم ِوحشت میں
لُٹنے کا سبب دیکھا
پھر دل میں چھنک اٹھی
۔۔۔۔ زنجیر ِشناسائی
ہم لوگ نہیں سوتے
اور کھل کے نہیں روتے
کیوں دل میں سلگتے ہیں
کیوں خواب اترتے ہیں
ملتی نہیں جب ان کو
۔۔۔۔ تعبیر ِشناسائی
اک اور بھی دن گزرا
اک اور بھی شب کاٹی
پھر پائے شکستہ سے
زنجیر ِطلب کاٹی
شاید کہ یونہی بدلے
۔۔۔۔۔ تقدیر ِشناسائی
آغاز ِمحبت سے
اُس لمحۂ فرقت سے
نامہ نہ سندیسہ ہے
پیغام نہ جھونکا ہے
کیا نیند میں کھینچی تھی
۔۔۔ تصویر ِشناسائی
(ثمینہ راجہ )
|