* احتجاج اب دِلوں سے زبانوں تلک آ چک *
احتجاج
اب دِلوں سے زبانوں تلک آ چکا
ہاتھ میں ہاتھ ڈالے
گھروں سے نکل کر سبھی لوگ بازار میں آ گئے ہیں
دہکتے ہوئے سرخ چہرے، تڑپتے ہوئے جسم
آنکھوں میں چنگاریاں ہیں
ہجوم ایک دیوانگی میں مسلسل بڑھا آ رہا ہے
یہی عزم لے کر
کہ اب ظلم کو نیست و نابود کرنے سے کم پر
کوئی شخص راضی نہیں
چار جانب سے بڑھتے ہوئے سارے لوگوں کی منزل ہے
اک چوک، جس کے سبھی راستے
گھوم پھر کے بھی ایوان ِبالا کو جاتے ہیں
لوگوں کے ہاتھوں میں کتبے ہیں
ہونٹوں پہ نعرے ہیں
دل میں وہ طوفاں ہے
ایواں تو کیا ۔۔۔ آسماں کو ہِلا دے
بہت گرم سورج کے نیچے
بہت بے مروّت زمیں پر
بہت آخری فیصلے سے ذرا پیشتر
لوگ رُک کر
دعا کے لیے آسماں کی طرف دیکھتے ہیں
بُھلائے ہوئے ایک وعدہ
کہ جس طرح کی قوم ہوگی
اُسی طرح کے حکمراں ہی مسلّط کیے جائیں گے
اِس سے پہلے
یہ وعدہ فراموش، نعرہ زناں، مشتعل لوگ
پہنچیں
وہاں چوک پر ۔۔۔ آئنہ لگ چکا ہے
by Samina Raja
|