* وہ سیلِ اشک تھا کہ سمندر بپھر گیا *
غزل
وہ سیلِ اشک تھا کہ سمندر بپھر گیا
موجِ بلا تھی ایسی کہ طوفان ڈر گیا
اک بے وفا نے فرضِ وفا جب کیا ادا
سنتے ہیں بے وفائی کا چہرہ اُتر گیا
اُس کو عطا ہوئی ہیں سدا سربلندیاں
دربار میں جھکا کے ہمیشہ جو سر گیا
تا عمر نبھ نہ پائی سیاست سے دوستی
کوئی بدل گیا ہے تو کوئی مکر گیا
کچھ حوصلہ بڑھائو تو میں فیصلہ کروں
بے وقت کیسے کہہ دوں مقدر سنور گیا
خیرات نفرتوں کی محل سے جو دی گئی
کشکولِ چشم دیکھ لے اشکوں سے بھرگیا
چہرے کی بے کلی نہ کوئی پڑھ لے اس لئے
سنجے ہجوم غیر سے ہنس کر گزر گیا
سنجے قمر
Vill: Kolhua, Post: Madhar
Nalanda (Bihar)
Mob: 9472083973
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|