* حیلۂ صبر بتائیں جو تمہیں یاد رہے *
حیلۂ صبر بتائیں جو تمہیں یاد رہے
ہم کو دم توڑتے دیکھو تو خفا ہو جانا
دامِ الفت نے قفس مجھ کو دکھایا آخر
خوف کہتا تھا کہ گلشن سے ہوا ہو جانا
پھول کو توڑ کے دیکھو اثر وصل و فراق
موت ہے چاہنے والوں سے جدا ہو جانا
کس دوراہے میں کھڑا ہوں متحیر کی طرح
کہ بقا ہے مجھے ممکن نہ فنا ہو جانا
تہنیت موت کو دیتا ہے مرے دل کا مرض
عید ہے ماتمِ حسر ت کا بپا ہو جانا
٭٭٭
|