* دل جب احساس کی آنچوں سے پگھل جاتا ہ *
غزل
دل جب احساس کی آنچوں سے پگھل جاتا ہے
غمِ جاناں غم ِ دوراں میں بدل جاتا ہے
اشک مجبور کو تحقیر کی نظروں سے نہ دیکھ
یہی قطرہ کبھی طوفان میں ڈھل جاتا ہے
شعلہ ٔ درد ہو یا ہو تری یادوں کی کرن
دل ہر اک آتشِ خاموش سے جل جاتا ہے
چھیڑتا ہے جو کوئی تذکرہ مہر و وفا
رنگ کیوں آپ کے چہرے کا بدل جاتا ہے
وہ نظر بدلے توبن جاتی ہے ہر رات پہاڑ
لطف فرما ہو تو پھر حشر بھی مل جاتا ہے
ہم سے کچھ آبلہ پا تھک کے جہاں رک جائیں
وہ بیاباں بھی گلستاں میں بدل جاتا ہے
نہ سہی گر غم جاناں غمِ دوراں ہی سہی
دل وہ ناداں ہے کہ ہر شئے سے پہل جاتا ہے
ترا ثاقب تری مے بارِ نگاہوں کے طفیل
روز پیتا ہے، بہکتا ہے، سنبھل جاتا ہے
٭٭٭
|