* اُس نے میرے سامنے کیسا یہ منظر رکھ *
غزل
اُس نے میرے سامنے کیسا یہ منظر رکھ دیا
میٹھے دریا کے عوض کھارا سمندر رکھ دیا
جو بہا لے جائے پربت ، لہریں ایسی بے لگام
سامنے اِن کے ہی میرا ریت کا گھر رکھ دیا
چار سو پھیلی ہے دہشت وہ مگر پردے میں ہے
چاہی جب قربانی تو مظلوم کا سر رکھ دیا
بن گیا ہے زخم اب ناسور کوئی کیا کرے؟
چارہ گر نے زہر کا پیالہ ہی بھرکر رکھ دیا
بس در و دیوار ہے، تنہائی ہے، میں ہوں جہاں
خوبصورت سے قفس کا نام ہی گھر رکھ دیا
دور اڑتی تھی اُفق تک ایک چڑیا وہ سروج
وقت کے حالات نے کیوں کاٹ کے پر رکھ دیا
سروج ویاس
140, Verma Layout
North Ambajhri Road
Nagpur-440033 (M.S)
Mob: 9422820384
Ph. 0712-2238707
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|