* میں اپنے فن پہ اتراتا ہوں اتراہٹ ن *
غزل
میں اپنے فن پہ اتراتا ہوں اتراہٹ نہیں جاتی
کہ جیسے شیر کی فطرت سے غراہٹ نہیں جاتی
نہ ہو ذکرِ وفاداری تو چاہے جیسی محفل ہو
مرے سینے سے یارو میری اکتاہٹ نہیں جاتی
ضرور اس راستے سے کچھ امیر شہر گزرے ہیں
جبھی تو ایک بھی چہرے سے گھبراہٹ نہیں جاتی
میں سچ کہنے کا عادی ہوں میں سچ سننے کا عادی ہوں
کوئی جب جھوٹ بولے میری جھنجھلاہٹ نہیں جاتی
خدا ہی جانے ماں کی گود میں کیسی حرارت ہے
تصور میں بھی آجائے تو گرماہٹ نہیں جاتی
سنا ہے غائبانے میں حسیں تقریر کرتا ہے
ہمارے سامنے تو اُس کی ہکلاہٹ نہیں جاتی
زمانہ ہوگیا اُس نے یہاں پر پائوں رکھا تھا
سحر اب تک مرے کانوں سے وہ آہٹ نہیں جاتی
سحر مجیدی
5/2, G.C.R.C Ghaat Road, Shibpur
Howrah-711102
Mob: 9883233797
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|