* کتنے جادوئی سے منظر ہو گئے *
کتنے جادوئی سے منظر ہو گئے
مڑ کے دیکھا ہم نے پتھر ہو گئے
تم جو بدلے تو نہ جانے کس طرح
پھول جتنے تھے وہ خنجر ہو گئے
کیسی یہ بارش ہوئی اب کے برس
خواہیشوں کے کھیت بنجر ہو گئے
سکھ تو جیسے قرض تھے اس کے مگر
دکھ ہمارے تھے مقدر ہو گئے
شبنمی لہجہ یہ کس کا سن لیا
جتنے صحرا تھے سمندر ہو گئے
تم سے مل کے کتنے عرصہ بعد پھر
یوں لگا خود کو میسر ہو گئے
******8 |