غزل
شفیق خلش
جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا
تقریر میں اپنی وہ فضائل نہیں رکھتا
قسمت میں نہیں میری، پہ مائل نہیں رکھتا
دل ایسی میں مفروضہ پہ قائل نہیں رکھتا
سادہ ہوں طبیعت میں قنایت بھی ہے میری
چاہوں تو میں کیا کیا کے وسائل نہیں رکھتا
چاہا جسے صد شکر کہ حاصل ہے مجھے وہ
عاشق ہوں مگر دل ذرا گھائل نہیں رکھتا
شاداں ہوں مِلی مہوشِ خُوباں سے ہمہ وقت
دل اور کسی حُسن پہ مائل نہیں رکھتا
کیا کیا نہ تدابیر دل وذہن میں رکھے
کچھ کرنے کی جو شخص وسائل نہیں رکھتا
تفشیش زمانے کو ہے کیوں حال پہ میرے
ہے کون جو دنیا میں مسائل نہیں رکھتا
مجرم میں ہُوا کیوں طلبِ یار پہ اپنے
ہے کوئی درِ حُسن جو سائل نہیں رکھتا
اک لمحہ کہاں اپنا مجھے ہوش رہا اب
کب ذہن میں وہ حور شمائل نہیں رکھتا
نالاں ہیں سب احباب خلش صبر سے یوں بھی
پیش اُن کے کبھی اپنے مسائل نہیں رکھتا
*****