غزل
شفیق خلش
نہ پوچھو ہم سے کہ وہ خورد سال کیا شے ہے
کمر کے سامنے جس کی ہلال کیا شے ہے
حَسِین چیزکوئی کیا، جمال کیا شے ہے
خدا نے اُس کو بنایا کمال، کیا شے ہے
بنایا وہ یَدِ قدرت نے خاک سے پُتلا
خجِل ہوں حُورمقابل غزال کیا شے ہے
تمہارے حُسن سے، شاید مِرے تصور کو
کبھی خبر ہی نہیں ہو زوال کیا شے ہے
بتانا چاہیں بھی تو خاک ہم بتا نہ سکیں
وہ سَرْو قد، وہ خِراماں مثال کیا شے ہے
کہَیں جو وقت کو ہرایک زخم کا مرہم
اُنھیں خبر ہی نہیں ہے خیال کیا شے ہے
بتائیں کیا، کہ بنایا ہے اُس نے کاجل سے
نظر سے دل میں اُترتا جو خال، کیا شے ہے
ہے مشتِ خاک میں جاری وہ رقصِ بے ہنگام
مقابلے میں کہ جس کے دھمال کیا شے ہے
وہی ہیں ولولے دل میں خلش اوائل کے
غموں سے عشق میں ہونا نڈھال کیا شے ہے
شفیق خلش