غزل
عدو کے ہاتھ میں شمشیر ہے یہ جانتا ہوں میں
مگر یاو ر مری تقدیر ہے یہ جانتا ہوں میں
مجھے معلوم ہے تو میری چاہت کا نگینہ ہے
مرے خوابوں کی تو تعبیر ہے یہ جانتا ہوں میں
تمہارے حسن کی تعریف میں پہلی غزل میری
ہمارے پیار کی تفسیر ہے یہ جانتا ہوں میں
تری آنکھوں میں اس کا عکس آتا ہے نظر مجھ کو
ترے دل میں مری تصویر ہے یہ جانتا ہوں میں
ترے تلووں کے بوسوں کا شرف حاصل ہوا جس کو
وہ مٹی آج بھی اکسیر ہے یہ جانتا ہوں میں
غزل مت سن مری آنسو چھلک اٹھیںگے آنکھوں سے
مرے شعروں میں دردِ میرؔ ہے یہ جانتا ہوں میں
شفیق ؔ اس کے ’’وفا نامہ‘‘ پہ میں کیسے یقیں کر لوں
یہ پانی پر لکھی تحریر ہے یہ جانتا ہوں میں
شفیق ؔ رائے پوری