غزل
صلح و سلامتی کے سب امکان کھا گیا
دورِ جدید امن کا سامان کھا گیا
اس سے کریں تو کیسے امیدِ وفا کریں
جو مہربانی پی گیا احسان کھا گیا
کھاتا ہے جتنا بڑھتی ہی جا تی ہے اتنی بھوک
شہر ِ خموشاں کتنے ہی انسان کھا گیا
برباد کر دیا اسے شہرت کی بھوک نے
جب کچھ نہیں بچا تو وہ ایمان کھا گیا
یہ سانحہ نہیں ہے تو ہے اور کیا شفیقؔ
انسان کے سکون کو انسان کھا گیا
شفیق ؔ رائے پوری
******************