غــــزل
لب بہ لب ایسا زیاں لفظ و معنی کاہو
کوئی آغاز نہ انجام کہانی کا ہوا
ہم پہ دروازہ امکان ہوا بند مگر
کام اشکوں سے بھی پیغام رسانی کا ہوا
کون سنتا تھا تیری آہ و فغاں میرے سوا
کون قائل تری آشفتہ بیانی کا ہوا
صرف دعویٰ تھا دلیلیں کہیں موجود نہ تھیں
دیدنی حشر تمہاری ہمہ دانی کا ہوا
ایک تو عمر نہ تھی اور مرض عشق کا تھا
کیا برا حال بچارے کی جوانی کا ہوا
راستہ دوہی بہ ایوان غزل روشن ہے
ایک اختر کا ترے دوسرا بانی کا ہوا
شاہد اختر ،گیا