* ایک بوجھل شام کا گیت *
ایک بوجھل شام کا گیت
یادوں کے جگنو مت چھونا بن کر میری شام
اے میرے الزام!
رنگ نہیں ہے اب خوابوں میں
گھٹ گئے پنچھی محرابوں میں
آوارہ برساتیں لے گئیں کتنے صحن و بام
درد نے اتنے دیپ جلائے
روٹھ گئے سب روشن سائے
دل کی دیواروں پر ڈھونڈوں کوئی سنہرا نام
زندہ دلی سے گھبراتی ہے
میری دعاء یوں لوٹ آتی ہے
میری اُداسی مجھ سے بچھڑ کر ہوتی ہے بد نام
٭٭٭
|