* زرد پتوں کے تصور سے ڈری رہتی ہے *
غزل
زرد پتوں کے تصور سے ڈری رہتی ہے
دل کے گلشن میں کوئی سبز پڑی رہتی ہے
موسمِ درد میں ہر پیڑ بکھر جاتا ہے
ایک اُمید کی وہ شاخ ہری رہتی ہے
وقت کی دھوپ تپش لاکھ اُگالے دل پر
ایک گوشے میں تھوڑی تری رہتی ہے
دل وہ پتھر ہے جو ہر موج سہا کرتا ہے
غم و ہ ندّی ہے جو ہر وقت بھری رہتی ہے
فکرِ محبوبِ، غم دنیا، خیال مسجود
بے خودی ایسے مسائل سے بَری رہتی ہے
ٹوٹتا رہتا ہے کمرے میں اندھیرا شاہد
دھوپ دیوار کے اُس پار دھری رہتی ہے
٭٭٭
|