* یہ کیسا رشتہ چراغوں کا تیرگی سے تھ *
غزل
یہ کیسا رشتہ چراغوں کا تیرگی سے تھا
کہ ہر سراغ ترا گمرہی سے تھا
یہ سارے شہر میں کیسا غبار پھیلا ہے
میں ٹوٹ ٹوٹ کے بکھرا تو خاموشی سے تھا
وہ ایک لمحہ جو تحفے میں لائے تھے کل لوگ
وہ ایک لمحہ بھی میری ہی زندگی سے تھا
وہ خوش نصیب تھے، اک دوسرے کے دشمن تھے
مرا مقابلہ ہر موڑ پر مجھی سے تھا
تمہاری دی ہوئی اکتاہٹوں کا کیا کہنا!
میں رات کھُل کے بغل گیر زندگی سے تھا
مری اَنا سے جو شاہد اُبھرنے والا تھا
ڈرا ڈرا سا میں کتنا اُّ آدمی سے تھا
٭٭٭
|