* تمام عمریوںکیاکہ خواب میںمگن رہے *
غزل
تمام عمریوںکیاکہ خواب میںمگن رہے
سمندروںکاغرم تھا، سراب میںمگن رہے
حقیقتوںکے شہرکی حکایتیں کچھ اور تھیں
کمال تھا کہ ہم فقط کتاب میں مگن رہے
دھواں اٹھاکیا مچل مچل کے صحن وبام سے
چراغ تھے کہ شام کے شباب میں مگن رہے
خوشی کے نام پر تمام عمریوں گزرگئی
نئے نئے غموں کے انتخاب میں مگن رہے
ہمیں تواے جمیلؔ اپنی ذات ہی نگل گئی
وہ اورتھے جوساقی وشراب میں مگن رہے
٭٭٭
|