* چہرہ کنول، نہ دل کوئی دریادکھائی *
غزل
چہرہ کنول، نہ دل کوئی دریادکھائی دے
اب کے برس توشہرمیں صحرادکھائی دے
ہم سب بکھیرتے رہیں آدم کی دھجیاں
اورگندم اپنی آگ میں جلتادکھائی دے
آکاش چومتے ہوئے یہ قیمتوںکے ہونٹ
یعنی ہماراقدبہت اونچادکھائی دے
پھرسے عمارتوںکی طرف جھانک لوذرا
ممکن ہے اب وہیںکوئی ملبہ دکھائی دے
شاہدنکل چلوکہ یہاں خوف خودسے ہے
اس شہرمیں ہرآدمی تم سادکھائی دے
٭٭٭
|