* وہ دن کوعیاں ہوگامگررات رہے گی *
غزل
وہ دن کوعیاں ہوگامگررات رہے گی
اُس شخص سے پھرکُھل کے ملاقات رہے گی
اِس بارکوئی شہرمیںچھپرنہیںاپنا
اس باربڑی زورکی برسات رہے گی
گزراہوںگھنی شاخوںسے اس سارے سفرمیں
بے برگ درختوںمیںمری بات رہے گی
یخ بستہ نظرآئے گاوہ لوٹنے والا
سینے میںمگرگرمی ٔجذبات رہے گی
بھٹکاہوںبہت پیاس کے صحرائوںمیںشاہدؔ
اب بارشوںکی زدپہ مری ذات رہے گی
٭٭٭
|