* مجھ میں جو عظیم تر نشہ تھا *
غزل
مجھ میں جو عظیم تر نشہ تھا
میرے ہی لہو کا ذائقہ تھا
پڑھ ڈالے تھے کچھ وفا کے قصے
صحرا میں سحاب ڈھونڈتا تھا
منزل پسِ نقش پا تھی کوئی
پیغام غبار پہ لکھا تھا
اب تک وہ حروف جل رہے ہیں
آنکھوں کو چراغ لکھ دیا تھا
آنکھوں کے چراغ گل نہ ہوتے
گل لب پہ مگر جو کھل گیا تھا
٭٭٭
|