* بارشیں زندان ، قیدی ہے جولائی *
غزل
بارشیں زندان ، قیدی ہے جولائی
اے مرے دل! تیرے جیسی ہے جولائی
درد کی شاخوں میں رم جھم جاگتی ہے
پتیوں کے ساتھ بجتی ہے جولائی
کوئلوں کو بھیج دیتی ہے سکھا کر
پھر مئی کو بھیج دیتی ہے سکھا کر
پھر مئی کا کام کرتی ہے جولائی
بادلوں میں بجلیوں کی رقص گاہیں
ساغروں میں آگ بھرتی ہے جولائی
کوہساروں جیسی یادوں کی چٹانیں
وادی دل میں بھٹکتی ہے جولائی
۔۔۔
|