غزل
کِن پرندوں کا بیاں اپریل ہے
ہر شجر پر میزباں اپریل ہے
بارشوں کو تتلیوں کا انتظار ہے
تتلیوں کے درمیاں اپریل ہے
شام کو چھت پر چہکتا ہے بہت
دوپہر میں رائیگاں اپریل ہے
لو، سمندر، حبس کشتی کی طرح
اور اس کا بادباں اپریل ہے
پھر ہوا اُس چھت کی جانب مُڑ گئی
پھر کسی پر مہرباں اپریل ہے
۔۔۔۔