* روشن ہر ایک سمت چراغِ نظر تو ہو *
غزل
٭………شاہد کلیم
روشن ہر ایک سمت چراغِ نظر تو ہو
حکم سفر سے پہلے حساب سفر تو ہو
اس شہر کا سکوت کبھی ٹوٹتا نہیں
چیخوں تو میری چیخ میں کوئی اثر تو ہو
میں تو سیاہ رات کے زنداں میں ہوں اسیر
سایہ مرا کہاں ہے مجھے کچھ خبر تو ہو
پانی کا یہ بہائو ندی کی شناخت ہے
اب مرے برف برف بدن میں شرر تو ہو
فصلِ بہار سے میں کروں التجائے گل
صحرائے بے کنار میں کوئی شجر تو ہو
چاروں طرف دھواں ہی دھواں ہے فضائوں میں
منظر کوئی کھلے، کبھی نور سحر تو ہو
آندھی چلے اور اس میں جلا دیں کوئی چراغ
****** |