* منزل کو نا پانے کا افسوس رہا *
غزل
منزل کو نا پانے کا افسوس رہا
رستے کے کھوجانے کا افسوس رہا
گلیوں گلیوں گھومے تھے جس کی خاطر
اُس گھر کے مل جانے کا افسوس رہا
وہ فصلیں جو کٹ کر بھوکوں میں نہ بٹیں
اُن کے دانے دانے کا افسوس رہا
دل بھی دکھا اور کوئی بات بدل نہ سکی
قصے کے دہرانے کا افسوس رہا
خارِ الم جب راہِ وفا سے کم نہ ہوئے
درد سمیٹ کے لانے کا افسوس رہا
آس بھری نظروں سے خالی رستے کی
شہلا آنکھ چرانے کا افسوس رہا
ڈاکٹر) شہلا نقوی )
New York
(U.S.A)
Mob: 0015164847850
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|