* کسی نے ایسا طلسم یقیں نہیں دیکھا *
غزل
کسی نے ایسا طلسم یقیں نہیں دیکھا
کہ اس کے بعد اسے پھر کہیں نہیں دیکھا
یہ کس نے دشت کی تصویر آنکھ میں رکھ دی
سکوت ایسا برہنہ نشیں نہیں دیکھا
سرائے شب میں جو ٹھہرے تھے کیا ہوائے آخر
غبارراہ دم آخریں نہیں دیکھا
ستارے ٹوٹ کے گرتے تھے جانمازپہ رات
کہ ایسا عرش نے صاحب جبیں نہیں دیکھا
بس اتنا یاد ہے مقتل سے کوئی گذرا تھا
لہو میں ترتھی مری آستیں نہیں دیکھا
٭٭٭
|