* ہزار چھیڑے طبیعت مگر حیانہ لگے *
غزل
ہزار چھیڑے طبیعت مگر حیانہ لگے
شریر جسم کو احساس کی ہوانہ لگے
ہراک وجود تماشے کی گرد میں گم ہے
مجھے تو اپنا سراپا بھی آشنانہ لگے
ہزار بار میں لکھا گیا مٹایا گیا
مری یہ عمر کسی کو بھی اے خدانہ لگے
بھرا ہے گھرپہ قرینے کی میزننگی ہے
کسی مکان کو آسیب کی ہوانہ لگے
شکیب ایاز کہاں اب وہ شہر میں احباب
کہ منہ پہ لاکھ کہے پھر بھی کچھ برانہ لگے
٭٭٭
|