* وہ نئی جو ایک گم سم سی تیری اک سہیلی & *
غزل
وہ نئی جو ایک گم سم سی تیری اک سہیلی ہے
بوجھئے توکھل جائے ایسی اک پہیلی ہے
وہ جو ایک گڑیا سی کچکرے سی لگتی ہے
کیا کہوں کہ بچپن میں میرے ساتھ کھیلی ہے
سارے رابطے ٹوٹے، سارے واسطے جھوٹے
میں بھی تنہا تنہا ہوں وہ بھی اب اکیلی ہے
اس کے گھر دریچے میں شام ہوگئی شاید
میر گھر کے آنگن میں چاندنی اکیلی ہے
کل یہاں تمسک میں بک گئی حویلی بھی
اس کے ہاتھ میں رکھی کاغذوں کی تھیلی ہے
آسماں کا ساتوں در بند ہوگیا شاید
دھوپ کی نئی چادر آج کتنی میلی ہے
ان کے آس پاس آخررات کیوں نہیں ہوتی
چاند تو نہیں لیکن چاند کی سہیلی ہے
٭٭٭
|