* اُس کی اب گرد نہیں کوئی بھی پانے وا *
غزل
اُس کی اب گرد نہیں کوئی بھی پانے والا
وہ زمیں سے مہ و انجم ہے اگانے والا
موت کو زیست کا انداز سکھا دیتا ہے
اک نئے دوڑ کی تاریخ بنانے والا
پاسِ تہذیبِ محبت تو ہے خار و گل کو
باغباں فتنے مگر خود ہے جگانے والا
بخت رونے سے نہ بدلا ہے نہ بدلے گا کبھی
بات یہ سمجھے گا کب اشک بہانے والا
کھوگیا شہرِ غم و درد میں وہ بھی آخر
بارِ غم جو تھا زمانے کا اٹھانے والا
کیجئے لاکھ صداقت کی حمایت اے شکیل
آپ کو کوئی نہیں سر پہ بٹھانے والا
شکیل گونڈوی
T17C, Biplabi Ankul Chandra Street
Kolkata-700072
Mob: 9831453940
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|