* حقیقتوں سے جو نکلے تو خواب تک پہنچ *
غزل
٭………شمیم فاروقی
حقیقتوں سے جو نکلے تو خواب تک پہنچے
کہ جیسے کوئی سمندر سراب تک پہنچے
کہیں سے مل نہ سکا مجھ کو اِذن گویائی
مرے سوال ہی آخر جواب تک پہنچے
جو پارسا تھے رہے زعم پارسائی میں
گناہ گار ہی کارِ ثواب تک پہنچے
نہ ہوگی دور کہیں سے دلوں کی تاریکی
اسے کہو کہ وہ روشن کتاب تک پہنچے
بھٹک رہے تھے جو منزل کی جستجو میں شمیمؔ
وہ قافلے دل خانہ خراب تک پہنچے
**** |